New Post

Rss

Tuesday 18 November 2014
Ashfaq Ahmed

Ashfaq Ahmed



 اس میں کوئی شک نہیں کہ غلطی پکڑنا اور غلطی کی نشاندہی کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے ۔ لیکن یہ بات بھی ہر حال میں یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انسان غلطی بھی کرتا ہےاورناکام بھی ہوتا ہے ۔ اور اپنی ترقی کے راستے پہ رک بھی جاتا ہے ۔ لیکن اس ساری کائنات میں صرف خدا کی ذات وہ ہستی ہے جو نہ تو کبھی غلطی کرتی ہے اور نہ ہی کبھی ناکام ہوتی ہے ۔ جو لوگ ہر وقت دوسروں کی غلطیاں پکڑنے میں مصروف رہتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر افسوس کرتے رہتے ہیں وہ نعوذباللہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اور جب ان سے خدا نہیں بنا جاتا کہ ایسا ممکن ہی نہیں تو پھر وہ شیطان بننے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور اس میں اپنا اور دوسروں کا نقصان کر نا شروع کر دیتے ہیں ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 417
Monday 14 April 2014
no image

سقراط


سقراط کی زندگی کے بارے میں کوئی زیادہ مواد میسر نہیں ۔ سقراط کے دوستوں اور شاگردوں نے اس کی زندگی کے بارے میں جو کچھ اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔ اس سے ہی سقراط کا سوانحی خاکہ تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔سقراط کے لڑکپن کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ایک واقعہ سقراط کے بچپن کے دوست اور ہم مکتب کرائیٹو نے بیان کیا ہے۔ کرائیٹو کا کہنا ہے کہ میں اور سقراط ایک دن کمہار کے چاک کے پاس سے گزر رہے تھے۔ کمہار نے نرم نرم ملائم مٹی کا ایک لوندا چاک پر رکھا، چاک کو تیزی سے گھمایا اور مٹی کے لوندے میں اپنے دونوں ہاتھوں کو کچھ اس طرح سے حرکت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت مرتبان مٹی کے لوندے کی جگہ پر نمودار ہو گیا۔ سقراط نے کہا ابھی تو چاک پرمٹی کا لوندا تھا یہ خوبصورت مرتبان آخر کہاں سے آ گیا پھر خود ہی کہنے لگا ہاں یہ مرتبان کمہارکے ذہن میں تھا اور پھر ہاتھوں کے ہنر سے منتقل ہو کر اس چاک پر آ گیا۔ سقراط نے نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی بھی مادی چیز جیسے مکان، کرسی یا کوئی مجسمہ یا تصویر پہلے انسان کے ذہن میں آتی ہے، پھر انسان اپنے ذہن کے اس نقشے کو مادی شکل میں ڈھالتا ہے۔یہ ایک زبردست اور غیرمعمولی دریافت تھی۔سقراط نے ہنر، فن اور تخلیق کے بارے میں جان لیا تھا۔ سقراط کے قریبی دوست فیڈو، کرائیٹو اور خاص شاگرد افلاطون کا کہنا ہے کہ سقراط پر بعض اوقات ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی،جس کو الفاظ میں پورے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ایسی کیفیت میں وہ اپنے آپ سے مکمل طور پر بے خبر ہو جایا کرتا تھا۔ یہ کیفیت اسے کوئی کام کرنے سے روک دیتی کیونکہ وہ ایسے کام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔سقراط نیکی اور اچھائی کی حقیقت کو محسوس کر لیتا تھا، لیکن کم عمری کی وجہ سے اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا تھا لیکن اس کیفیت کا تعلق مسرت اور لطافت سے ضرور تھاکیونکہ اس کیفیت کے ختم ہو جانے پر جو کام کرتا وہ انتہائی تحسین کے قابل ہوتا تھا۔پھر اچھے نتائج برآمدہونے کی بنا پر وہ اس نشان کی کیفیت پر یقین کرنے لگا۔سقراط خیال کرتا تھا کہ یہ الہامی نشان دیوتائوں کی جانب سے اس کی رہنمائی کرتا ہے کیونکہ دیوتائوں کو تمام چیزوں کا علم ہے۔بچپن سے سقراط جب جوانی میں داخل ہوا، تو پھر وہ الہامی نشان کی کیفیت کو سمجھنے لگا، اسے یقین ہونے لگا کہ اس کے ضمیر میں اچھائی اور نیکی کے حوالے سے کوئی خاص بات ہے۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ اس الہامی نشان کی وجہ سے جو کیفیت طاری ہوتی ہے، وہ کوئی غیرمعمولی چیز ہے، نہ ہی اس نے خو دکبھی کہا کہ وہ نشان اس کی رہنمائی کرتا ہے۔دراصل الہامی نشان کو ضمیر کی آواز کہنا زیادہ مناسب ہے جو کہ اسے غیرضروری کام کرنے سے روکتا تھا اور اچھے اور نیک کام کرنے کامشورہ دیتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ سقراط کی اس کیفیت کا چرچا ہونے گا۔ ایتھنز کے لوگ اس کے متعلق بحث کرنے لگے لیکن سقراط نے کبھی بھی اپنی اس کیفیت کے حوالے سے نہ کوئی بات کی نہ ہی کسی کو اس کیفیت کی تفصیل بتائی۔ (کتاب ’’ سقراط :حیات ، فلسفہ اور نظریات‘‘ مصنف:ملک اشفاق
Copyright © 2012 Iqbal Ansari All Right Reserved